بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے
بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے
اس دشت میں گرداب کی صورت بھی بہت ہے
آنکھیں جو لیے پھرتا ہوں اے خواب مسلسل
میرے لیے یہ کار اذیت بھی بہت ہے
تم زاد سفر اتنا اٹھاؤ گے کہاں تک
اسباب میں اک رنج مسافت بھی بہت ہے
دو سانس بھی ہو جائیں بہم حبس بدن میں
اے عمر رواں اتنی کرامت بھی بہت ہے
کچھ اجرت ہستی بھی نہیں اپنے مطابق
کچھ کار تنفس میں مشقت بھی بہت ہے
اب موت مجھے مار کے کیا دے گی غضنفرؔ
آنکھوں کو تو یہ عالم حیرت بھی بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.