بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
دلچسپ معلومات
۱۳ ستامبعر ۱۹۷۶ دھلی
بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
اے دوست مجھے غم کی ضرورت سی لگے ہے
روداد محبت کی کسی کو نہ سناؤ
کچھ لوگ ہیں جن کو یہ شکایت سی لگے ہے
دم توڑتی قدروں کو بچانے کی اچھل کود
فطرت کے اصولوں سے بغاوت سی لگے ہے
دنیائے تماشا تو بدلتی ہے کئی رنگ
گہہ خواب لگے گاہ حقیقت سی لگے ہے
احساس کا دھوکا ہے یہ جذبات کا جادو
اپنوں کی عداوت بھی محبت سی لگے ہے
بے ربط خیالوں کے شگوفوں کی لطافت
مجبور غریبوں کی ذہانت سی لگے ہے
طالبؔ کو شرافت پہ بڑا ناز تھا لیکن
اب اس کی شرافت بھی حماقت سی لگے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.