بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں
بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں
زندگی روٹھ گئی لوٹ کے پھر آئی نہیں
جو سمجھنا ہی نہ چاہے اسے سمجھائی نہیں
جو بھی اک بار کہی بات وہ دہرائی نہیں
حسن سادہ ہے ترا میں بھی بہت عام سی ہوں
میری آنکھوں میں کسی نیل کی گہرائی نہیں
میرا حصہ مجھے خاموشی سے دے دیتا ہے
درد کے آگے ہتھیلی کبھی پھیلائی نہیں
اپنے افکار لیے پہلو نشیں ہو کے رہا
دل سے درویش نے دنیا تری اپنائی نہیں
شب کے تاریک لبوں پر ہے کئی سال کی چپ
خود سے ناراض ہے اتنی کبھی مسکائی نہیں
باس پھولوں کی چرا لی ہے ہواؤں نے مگر
جو کلی یاد کی تیری ہے وہ مرجھائی نہیں
آگ یہ دونوں طرف کیوں نہ برابر سی لگے
ہائے وہ عشق ہی کیا جس میں پذیرائی نہیں
بے ارادہ بھی کوئی کام تعطل نہ پڑا
با ارادہ تھی ملاقات کی شب آئی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.