بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
کوئی کرتا تھا جب میری شکایت غائبانہ بھی
وہ جس پر مہرباں ہوتے ہیں دنیا اس کی ہوتی ہے
نظر ان کی پلٹتے ہی پلٹتا ہے زمانہ بھی
سنا کرتا ہوں طعنے ہجر میں کیا کیا رقیبوں کے
بنا ہوں اس محبت میں ملامت کا نشانہ بھی
یہاں بھی فرض ہے زاہد ادب سے سر جھکا لینا
مرے نزدیک کعبہ ہے کسی کا آستانہ بھی
فریب دام میں لائی ہے کچھ صیاد کی خاطر
قفس میں کھینچ کر لایا ہمیں کچھ آب و دانہ بھی
جلا کر دل مرا صیاد کا ٹھنڈا کلیجہ کر
کہیں اے برق جلدی پھونک میرا آشیانہ بھی
بگڑتے دیر ہوتی ہے نہ بنتے دیر ہوتی ہے
مزاج یار سے کچھ ملتا جلتا ہے زمانہ بھی
حسیں پڑھ کر غزل میری مرے مشتاق ہوتے ہیں
مسخر دل کو کرتا ہے کلام عاشقانہ بھی
نہ بھولے گی حفیظ احباب کو یہ سرگزشت اپنی
جہاں میں یاد رہ جائے گا کچھ اپنا فسانہ بھی
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jaunpuri (Pg. Ghazal Number-202 Page Number-185)
- Author : Tufail Ahmad Ansari
- مطبع : Qaumi Council Baraye Farogh-e-urdu Zaban (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.