بیمار ہیں تو اب دم عیسیٰ کہاں سے آئے
بیمار ہیں تو اب دم عیسیٰ کہاں سے آئے
اس دل میں درد شوق و تمنا کہاں سے آئے
بے کار شرح لفظ و معانی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تجھ سا کہاں سے آئے
ہر چشم سنگ کذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرنا کہاں سے آئے
وحشت ہوس کی چاٹ گئی خاک جسم کو
بے در گھروں میں شکل کا سایہ کہاں سے آئے
جڑ سے اکھڑ گئے تو بدلتی رتوں سے کیا
بے آب آئنوں میں سراپا کہاں سے آئے
سایوں پہ اعتماد سے اکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے
غم کے تھپیڑے لے گئے ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے
ناہیدؔ فیشنوں نے چھپائے ہیں عیب بھی
چشمے نہ ہوں تو آنکھ کا پردہ کہاں سے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.