بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو
بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو
چاہے رئیس شہر کی بولی ہی کیوں نہ ہو
احسان رنگ غیر اٹھاتے نہیں کبھی
اپنے لہو سے کھیل وہ ہولی ہی کیوں نہ ہو
سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ نہ آنا کمال ہے
دنیا سے کھیل آنکھ مچولی ہی کیوں نہ ہو
ہے آسماں وسیع زمیں تنگ ہی سہی
تعمیر کر کہیں کوئی کھولی ہی کیوں نہ ہو
حق پر جو ہے وہی سر و شانہ بلند ہے
ہے ورنہ بے بساط وہ ٹولی ہی کیوں نہ ہو
دریا کی کیا بساط کہ مجھ کو ڈبو سکے
کشتی کہیں کہیں مری ڈولی ہی کیوں نہ ہو
تلخی میں بھی مزہ ہے جو تو خوش مذاق ہے
پک جائے تو بھلی ہے نمولی ہی کیوں نہ ہو
کچھ تو حدیث خیرؔ سمجھنے کے کر جتن
ہر چند بے مزہ مری بولی ہی کیوں نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.