بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی
خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھی
نہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی
مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژ گوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالبؔ شوق وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردش گردون دوں وہ بھی
نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کے آنے کا
کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وہ بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.