بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے
بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے
ہوا ہے ایسی کہ سارے چراغ بجھنے لگے
یہ کیسی پیاس ہے اے اہل درد کچھ تو کہو
کہ تشنگی نہ بجھی اور ایاغ بجھنے لگے
یہیں کہیں سے تو گزرا تھا کاروان مراد
ہوائے دشت ٹھہر جا سراغ بجھنے لگے
ابھی تو دل میں فروزاں تھے یاد گل کے چراغ
ابھی سے کیوں مرے جذبوں کے باغ بجھنے لگے
ہوا سے لینی تھی داد مبارزت طلبی
بغیر بھڑکے ہی یہ کیوں چراغ بجھنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.