بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے
بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے
زباں پہ کانٹوں کا احساس بھی غنیمت ہے
رواں ہے سانس کی کشتی اسی کے دھارے پر
یہ ایک ٹوٹی ہوئی آس بھی غنیمت ہے
نشاں نمو کے ہیں کچھ تو بساط صحرا پر
جھلستی جلتی ہوئی گھاس بھی غنیمت ہے
پھر اس کے بعد تمہاری شناخت کیا ہوگی
روایتوں کی یہ بو باس بھی غنیمت ہے
وہ اب بھی ملتا ہے اپنی ادائے خاص کے ساتھ
کہ وضع داری کا یہ پاس بھی غنیمت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.