چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں
چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں
لوٹ کر نہیں دیکھا ہم نے اپنا گھر برسوں
جادۂ حوادث میں چل کے دیکھ لے کوئی
کیسے طے کیا ہم نے موت کا سفر برسوں
برگ و بار پر اس کے حق نہیں ہمارا ہی
اپنے خون سے سینچا ہم نے جو شجر برسوں
جو صدف سمندر کی تہہ میں چھان سکتے تھے
ڈھونڈتے رہے وہ بھی ریت میں گہر برسوں
دوستو ضرورت پر کام آ گیا اپنے
دشمنوں سے سیکھا تھا ہم نے جو ہنر برسوں
جب ملے رفیقوں سے زخم ہی ملے ہم کو
بے سبب رہا دل میں دشمنوں کا ڈر برسوں
وہ بھی کیا عجب دن تھے شوق رہ نوردی میں
ہم نے بھی زمانے کی سیر کی ظفرؔ برسوں
- کتاب : Nawa-e-harf-e-khamoosh (Pg. 99)
- Author : Zafar Kaleem
- مطبع : Zafar Kaleem (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.