چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا
چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا
چلو اچھا ہی ہوا مفت لٹا دی یہ جنس
ہم کو ملتا صلۂ حسن نظر ہی کتنا
کیا پگھلتا جو رگ و پے میں تھا یخ بستہ لہو
وقت کے جام میں تھا شعلۂ تر ہی کتنا
کس خطا پر یہ اٹھانا پڑی راتوں کی صلیب
ہم نے دیکھا تھا ابھی خواب سحر ہی کتنا
ہم بھی کچھ دیر کو چمکے تھے کہ بس راکھ ہوئے
سچ تو یہ ہے کہ رم و رقص شرر ہی کتنا
طرز احساس میں ندرت تھی ادھر ہی کتنی
فکر و جذبے میں توازن ہے ادھر ہی کتنا
دے دیئے خسرو و شیریں نے اسے موڑ کئی
ورنہ یوں فاصلۂ تیشہ و سر ہی کتنا
تیرا عرفان تو کیا خود کو نہ پہچان سکا
تھا مرا دائرہ علم و خبر ہی کتنا
یک قدم بیش نہیں شب کی مسافت لیکن
ایک ٹوٹے ہوئے تارے کا سفر ہی کتنا
اے فضاؔ دامن الفاظ ہے اب بھی خالی
تھا یہاں شاخ معانی پہ ثمر ہی کتنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.