چھوڑ گیا وہ نقش ہنر اپنا طغیانی میں
چھوڑ گیا وہ نقش ہنر اپنا طغیانی میں
ایک شناور تھا جو اترا گہرے پانی میں
پھیلا ہوا تھا دام فلک بھی آئینہ صورت
اس نے بھی پرواز بھری تھی کچھ حیرانی میں
دود چراغ صبح میں جیسے سہمی سمٹی رات
روشن ہے فانی منظر اس کا لا فانی میں
تھکی تھکی آنکھوں میں پریشاں اس کا خواب وصال
ہجر کی لمبی رات کٹی بس ایک کہانی میں
سایۂ عرض و طلب کو روندا اس نے پیروں سے
اس کی انا کا سورج تھا اس کی پیشانی میں
اب اس کے اظہار کو دینا چاہے جو بھی نام
اس کو جو کہنا تھا کہہ گیا اپنی بانی میں
اک اک کر کے رمزؔ بجھے جاتے ہیں سارے چراغ
میں ہوں اپنا خوف اپنی بڑھتی ویرانی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.