دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے
دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے
دھبے بھی ہیں نگاہ میں اپنی قباؤں کے
سینہ میں سوز مرگ تمنا نہ پوچھئے
مرگھٹ میں جیسے اٹھتے ہوں شعلے چتاؤں کے
ہم نے تو کشتیوں کو ڈبونا کیا قبول
منت گزار ہو نہ سکے ناخداؤں کے
دنیا نے ان پہ چلنے کی راہیں بنائی ہیں
آئے نظر جہاں بھی نشاں میرے پاؤں کے
صحرا کے خشک سینہ سے چشمہ ابل پڑا
رگڑے لگے جو ننھے سے بچہ کے پاؤں کے
بوڑھا سا ایک پیڑ وہ اب صحن میں نہیں
ہم نے اٹھائے فیض سدا جس کی چھاؤں کے
پی لو امیرؔ اب مئے عرفان و آگہی
کیوں جال میں پھنسے ہو مجازی خداؤں کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.