دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے
دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے
آگ کا دریا پار بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے
حد نظر تک اک تنہائی خاک اڑاتی پھرتی ہے
صحرا بے بس اپنی ہی ویرانی سے ہو جاتا ہے
جتنی عمر سرابوں کا پیچھا کرنے میں گزرتی ہے
اتنا گہرا پیاس کا رشتہ پانی سے ہو جاتا ہے
گھر سے نکلنا بھی مشکل ہے گھر میں رہنا بھی مشکل ہے
کیسا موسم بارش کی من مانی سے ہو جاتا ہے
رونے سے دل ہلکا تو ہو جاتا ہے لیکن سوچو
وہ نقصان جو اشکوں کی ارزانی سے ہو جاتا ہے
جھیل کی گہری خاموشی بھی ہوتی ہے مشکوک مگر
دریا رسوا موجوں کی طغیانی سے ہو جاتا ہے
- کتاب : Bechehragi (Pg. 79)
- Author : bharat bhushan pant
- مطبع : Suman prakashan Alambagh,Lucknow (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.