دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم
دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم
خود آ گئے زمین پہ جب آسماں سے ہم
ہم کو بھی مصلحت نے سیاسی بنا دیا
پہلے کہاں مکرتے تھے اپنی زباں سے ہم
دونوں قدم بڑھائیں مٹانے کو نفرتیں
آغاز تم وہاں سے کرو اور یہاں سے ہم
رستے کی ہر نگاہ تجھے پوچھتی ملی
گزرے ترے بغیر جدھر سے جہاں سے ہم
ہم دھوپ کے بجائے گھنی چھاؤں سے جلے
تھا خوف رہزنوں کا لٹے پاسباں سے ہم
پڑھنا جسے فضول سمجھتی ہے نسل نو
مشہور ہو گئے اسی اردو زباں سے ہم
تب دشمنوں کے باب میں سوچیں فرازؔ ہم
فرصت ذرا جو پائیں غم دوستاں سے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.