دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ
گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ
لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے
مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ
پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے
کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ
ابھی اس دھوپ کی چھتری تلے کچھ پھول کھلنے دو
زمیں بدلے گی اپنا آسماں آہستہ آہستہ
کسے اب ٹوٹ کے رونے کی فرصت کار دنیا میں
چلی جاتی ہے اک رسم فغاں آہستہ آہستہ
مرے دل میں کسی حسرت کے پس انداز ہونے تک
نمٹ ہی جائے گا کار جہاں آہستہ آہستہ
مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابشؔ
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
- کتاب : Ishq Abaad (kulliyat) (Pg. 107)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.