در کھول کے زنداں کے ہر قید اٹھا دی ہے
در کھول کے زنداں کے ہر قید اٹھا دی ہے
لیکن میرے ہونٹوں پہ اک مہر لگا دی ہے
اے اہل چمن پوچھو کیا سوچ کے مالی نے
کانٹوں کو دلارا ہے پھولوں کو سزا دی ہے
صحراؤں سے ہم گزرے کانٹوں کو لہو دے کر
ہر موڑ پہ منزل کے اک شمع جلا دی ہے
پھر شاخ نشیمن سے اٹھے گا دھواں برسوں
گلچیں نے گلستاں میں پھر آگ لگا دی ہے
اے اہل غرض تم نے تعمیر تو کی لیکن
ہر دل میں تعصب کی دیوار اٹھا دی ہے
تعبیر ملے شاید اب کل کے مؤرخ کو
ہم نے نئے خوابوں کی تصویر سجا دی ہے
احسان شبانہؔ ہے یہ اہل گلستاں کا
ہم جیسے دوانوں کو کانٹوں کی قبا دی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.