درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے
نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو
وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے
اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا
جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے
وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا
کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے
بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 41)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.