ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں
ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں
وہ روٹھ جائیں اور بھی ایسا نہ ہو کہیں
کب تک تلاش دل کی کروں اور کہاں کہاں
زلفوں میں دیکھ لیجئے الجھا نہ ہو کہیں
قاصد مرے مکاں کی طرف سے گیا جو آج
ہوتا ہے شک مجھے کہ بلایا نہ ہو کہیں
ہو جائے جل کے خاک نہ خود یہ مرا وجود
ڈرتا ہوں آہ کا اثر الٹا نہ ہو کہیں
دل لے کے اپنے پاس بلائیں وہ کس لئے
یہ بھی تو سوچتے ہیں تقاضا نہ ہو کہیں
اے شیخ تیری بات کا کیا اعتبار ہو
پردے میں اس عبا کے بھی دنیا نہ ہو کہیں
مدت ہوئی کہ دل کو قرار و سکوں نہیں
پھرتا ہے جیسے اس کا ٹھکانا نہ ہو کہیں
ان کا مریض غم ہے کئی دن سے جاں بہ لب
وہ دل میں سوچتے ہیں بہانہ نہ ہو کہیں
کوئے بتاں میں تیرا گزر ہے جو بار بار
اے دل تو ایسی باتوں سے رسوا نہ ہو کہیں
حافظؔ کی چشم تر پہ نظر چاہئے ضرور
یہ تار اشک دیکھیے دریا نہ ہو کہیں
- Soz-o-gudaaz
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.