دشت میں پہلے وہ سمندر چمکاتا ہے
دشت میں پہلے وہ سمندر چمکاتا ہے
تب پھر سینے میں خنجر چمکاتا ہے
بھیڑ سے وہ کرتا ہے مجھے کچھ ایسے جدا
بر نیزے پر میرا سر چمکاتا ہے
بھید کھولتا ہے وہ یوں اپنے ہونے کا
ہر آنے والے کا گھر چمکاتا ہے
دیکھوں وہ کب کرتا ہے زنگ انا کافور
دیکھوں وہ کب میرا اندر چمکاتا ہے
ورنہ کیا مٹی کیا مٹی کی کایا
کچھ تو ہے جو وہ زمیں پر چمکاتا ہے
تارے سورج پھول سمندر چڑیا میں
وہ کیسے کیسے منظر چمکاتا ہے
وہ کب رہنے دیتا ہے مجھ کو اکیلا طورؔ
آنکھ اک نیلم سی شب بھر چمکاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.