دیار جسم سے صحرائے جاں تک
اڑوں میں خاک سا آخر کہاں تک
کچھ ایسا ہم کو کرنا چاہیئے اب
اتر آئے زمیں پر آسماں تک
بہت کم فاصلہ اب رہ گیا ہے
بپھرتی آندھیوں سے بادباں تک
میسر آگ ہے گل کی نہ بجلی
اندھیرے میں پڑے ہیں آشیاں تک
یہ جنگل ہے نہایت ہی پر اسرار
قدم رکھتی نہیں اس میں خزاں تک
وہیں تک کیوں رسائی ہے ہماری
نقوش پا زمیں پر ہیں جہاں تک
نکل آؤ حصار خامشی سے
جو دل میں ہے وہ لاؤ بھی زباں تک
یہاں شیطاں پہ ہے اک لرزہ طاری
نہیں اٹھتا چراغوں سے دھواں تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.