دیکھا پلٹ کے جب بھی تو پھیلا غبار تھا
دیکھا پلٹ کے جب بھی تو پھیلا غبار تھا
کچھ آنسوؤں کی دھند تھی اجڑا دیار تھا
یادوں کے آئنہ میں ہیں اب بھی بسی ہوئی
آنکھیں کہ جن میں منجمد اک انتظار تھا
رشتوں کی ڈور ہاتھ سے چھوٹی تھی اس لیے
دامن جو بد گمانیوں سے تار تار تھا
کیسی تھی مے جو آنکھ سے تو نے پلائی تھی
میری رگوں میں آج تک اس کا خمار تھا
ٹوٹا کوئی ستارا تھا یا خواب آرزو
طائر قفس میں رات بہت بے قرار تھا
دھندلا دیے تھے جس نے سبھی آئینے یہاں
میرے ہی گھر سے اٹھا وہ گرد و غبار تھا
- کتاب : Koi bhi rut ho (Pg. 75)
- Author : Farah iqbal
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.