دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں
دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں
ہارتا کون ہے اس جنگ میں تنہائی کہ میں
بھول بیٹھا ہوں کہ افلاک بھی کچھ ہوتے ہیں
اپنی وسعت میں ملی مجھ کو وہ گہرائی کہ میں
آج تک اپنی رہائی کی دعا کرتا ہوں
اب کے زنجیر ہواؤں نے وہ پہنائی کہ میں
خود کو پانے لگا تنہائی کی تاریکی میں
اس قدر شوخ ہوا رنگ شناسائی کہ میں
رنگ تعبیر اندھیروں سے اٹھا لیتا ہوں
کون خوابوں کو عطا کرتا ہے بینائی کہ میں
گوشۂ دشت میں یوں ہی تو نہیں بیٹھا ہوں
سفر آسان کرے گا کوئی سودائی کہ میں
اس کی ہر بات پہ ایمان نہیں رکھتا ہوں
کچھ تو تحریر پہ ہو حاشیہ آرائی کہ میں
رکھنے والا ہوں قدم قریۂ شہرت میں حسنؔ
حملہ آور نہ کہیں ہو سگ رسوائی کہ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.