دھڑک رہا ہے خیالات کے سمندر میں
وہ بہہ رہا ہے مری ذات کے سمندر میں
بدن کو چھوڑ دیا چاند پر بسیرا ہے
کبھی تو آئے گا وہ رات کے سمندر میں
نہیں جواب کوئی صرف شور پھیلا ہے
وہ آ چکا ہے سوالات کے سمندر میں
وہ میری آنکھ کے نظارے میں سمایا ہے
میں چھپ گئی ہوں کرامات کے سمندر میں
فلک کے پاس مجھے اک سفر پہ جانا ہے
زمیں کے سارے طلسمات کے سمندر میں
پگھل رہا ہے کوئی فاصلوں کی حدت سے
چراغ جل رہا ہے ذات کے سمندر میں
یہ کون ہے جو مری آنکھ کے نظارے کو
دکھائی دے رہا ہے رات کے سمندر میں
وہ جوڑتا ہے زمانے کے تانے بانے کو
بکھر رہا ہے روایات کے سمندر میں
وہ ایک لمحہ جو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
لرز رہا ہے وہ خدشات کے سمندر میں
فلک میں تیرتی صدیوں کا فاصلہ نیلمؔ
سمیٹ لیتی ہے لمحات کے سمندر میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.