دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا
دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا
کر گئی افسردہ روحوں کو تر و تازہ ہوا
لاکھ بیٹھوں چھپ کر اپنے بند کمروں میں مگر
توڑ کر آ جائے گی ایک ایک دروازہ ہوا
صبح آنچل کی ہوا دے کر کھلاتی ہے جسے
شب کو بکھراتی ہے خود اس گل کا شیرازہ ہوا
بھر چلے تھے زخم جو پھر سے لگے منہ کھولنے
کچھ پرانے درد لے کر آئی ہے تازہ ہوا
جی ترستا ہے پھر ان لمحوں کو جب یکجا تھے سب
رقص مے بوئے سمن رنگ شفق تازہ ہوا
ہم تو اپنی خانہ ویرانی کا ماتم کر چکے
دیکھ کر جا کر اب تو کوئی اور دروازہ ہوا
وہ لطافت وہ مہک کیوں چاندؔ یکسر کھو گئی
بھر رہی ہے کن خطاؤں کا یہ خمیازہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.