دل شیدا کی حقیقت مرے مولا کیا ہے
دل شیدا کی حقیقت مرے مولا کیا ہے
جان حاضر ہے مری آپ سے اچھا کیا ہے
احمدؐ اور احمدؐ بے میم کا پردا کیا ہے
عقل اول کو بھی حیرت ہے معما کیا ہے
آپ کے غم نے تن زار میں چھوڑا کیا ہے
ملک الموت کا یہ مجھ سے تقاضا کیا ہے
عیش امروز پہ خوش ہیں غم فردا کیا ہے
موت آ جائے تو مر جائیں گے جھگڑا کیا ہے
ہم تو مدہوش پڑے رہتے تھے مے خانہ میں
کیا خبر کاتب اعمال نے لکھا کیا ہے
آج تک شہر خموشاں کا نہ کچھ حال کھلا
لوگ کیا دیکھنے جاتے ہیں تماشا کیا ہے
عرصۂ حشر میں ہے آج قیامت کی گرفت
اب بتائے تو کوئی نازش تقویٰ کیا ہے
سر تو ہم بھی نہ جھکائیں گے سبک سر ہو کر
چرخ دشمن ہے تو دشمن سہی ہوتا کیا ہے
تم سے ہٹ کر کہیں پڑتی ہی نہیں میری نظر
تم تمنا ہو مری اور تمنا کیا ہے
دو بدو کیوں نہ کہوں تم سے جو کہنا ہے مجھے
دل میں گھٹ گھٹ کے جو رہ جائے وہ شکوا کیا ہے
گل کے دامن پہ کہیں خون کا دھبہ نہ لگے
طرز فریاد یہ اے بلبل شیدا کیا ہے
مشکلیں سینکڑوں ہر گام پہ پیش آتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے تجھ کو ابھی پایا کیا ہے
کیا بتاؤں دل رنجور کی حالت تم کو
وہ تو ہر روز کا بیمار ہے اچھا کیا ہے
کلمہ پڑھتا ہوا قبر میں اترا ہوں میں
میرے مذہب کو نکیرین نے سمجھا کیا ہے
اک نہ اک فکر لگی رہتی ہے ہر دم مجھ کو
فکر دنیا میں پڑا ہوں غم عقبیٰ کیا ہے
بادہ نوشوں کے دعا کرتے ہی بادل امڈے
عقل حیران ہے زاہد کی یہ ہوتا کیا ہے
شب معراج کی کیا شان ہے اللہ اللہ
آج دیکھے تو کوئی عرش معلےٰ کیا ہے
اب کے بھی روضۂ اقدس پہ رسائی نہ ہوئی
اور پھر شومیٔ تقدیر کا رونا کیا ہے
اے فلک ہم تجھے ظالم نہیں کہتے لیکن
غور سے سن کہ صدائے لب دنیا کیا ہے
غم الفت کی تواضع کی جگر ہے موجود
اور مقدور میرا اس سے زیادہ کیا ہے
مردے جی اٹھتے ہیں جب نام ترا سنتے ہیں
ہم سے پوچھے کوئی اعجاز مسیحا کیا ہے
مصلحت یہ ہے کہ اظہار محبت نہ کروں
موت ہے میرے لئے عرض تمنا کیا ہے
دل روشن کو سمجھ کعبہ نشیں کی منزل
دیر کہتے ہیں کسے اور کلیسا کیا ہے
کبھی بوتل کو اٹھاتا ہے کبھی ساغر کو
نہیں معلوم کہ راسخؔ کا ارادہ کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.