دل عشق میں تباہ ہوا یا کہ جل گیا
دل عشق میں تباہ ہوا یا کہ جل گیا
اچھا ہوا خلش گئی کانٹا نکل گیا
الفت میں اس کی جان گئی دل بھی جل گیا
دشمن کا دو ہی دن میں دوالہ نکل گیا
دل اپنا اس سے مانگنے کو میں جو کل گیا
آنکھیں نکالیں لڑنے کو فوراً بدل گیا
جلتے ہیں غیر اپنا تو مطلب نکل گیا
قسمت سے بات بن بھی گئی داؤ چل گیا
تعریف حسن یار نے اس کو کیا رقیب
رہبر بھی بیچ رستے میں ہم سے بدل گیا
کرتا ہوں عرض ان سے جو چلنے کی میں کہیں
کہتے ہیں کیا دماغ تمہارا بھی چل گیا
بھاری ہے رات ہجر کی بیمار پر ترے
پھر اس کو خوف کچھ نہیں یہ دن جو ٹل گیا
دشمن کے نقش پا کو جو دیتے ہو گالیاں
پیٹو لکیر سانپ تو آیا نکل گیا
کس رنگ میں وہ رہتے ہیں اس کی خبر نہیں
محفل میں ان کی آج میں پہلے پہل گیا
ارمان کیا گئے کہ گیا دل بھی عشق میں
یہ وہ جوا ہے جس میں ہمارا مدل گیا
وہ جلوہ گاہ ناز ہو یا بزم غیر ہو
جنت ہمیں وہیں ہے جہاں دل بہل گیا
دشمن بھی جاں نثار بنے دے کے اپنا دل
حیرت ہے مجھ کو روپیہ کھوٹا بھی چل گیا
انجام عشق دیکھ لیا اپنی آنکھ سے
اب تو صفیؔ دماغ کا تیرے خلل گیا
- کتاب : Kulliyat-e-Safi (Pg. 83)
- Author : Safi Auranjabadi
- مطبع : Urdu Acadami Hayderabad (2000)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.