دن گزرتا ہے کہیں شام کہیں رات کہیں
دن گزرتا ہے کہیں شام کہیں رات کہیں
پھر وہی سایہ لگا ہو نہ مرے سات کہیں
اس لیے بھی تجھے ملتا ہوں میں اک اک کر کے
روند ڈالے نہ تجھے بھی مری بہتات کہیں
فاصلہ بڑھتا رہا بڑھتا رہا آخر کار
میں کہیں رہ گیا اور رہ گئے وہ ہات کہیں
پٹیاں باندھ کے رکھتا ہوں کہ ڈر لگتا ہے
کوئی سن ہی نہ لے زخموں کے سوالات کہیں
جمع ہوتا رہا ملبہ مرے اندر شارقؔ
اور سیلاب نے ڈھائے تھے مکانات کہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.