دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں
دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں
سبھی کہانیاں اک طاق میں پڑی ہوئی تھیں
اذان گونجی تو محراب میں کوئی بھی نہ تھا
بس ایک رحل پہ کچھ آیتیں پڑی ہوئی تھیں
سنائی دیتا ہے اب بھی مقدس آگ کے گرد
وہ لحن جس میں کئی حیرتیں پڑی ہوئی تھیں
مجھے نوازا تو پیشانی پر لکھا اس نے
وہ نام جس میں سبھی نسبتیں پڑی ہوئی تھیں
چراغ اوندھے پڑے تھے زمین پر سارے
اور ان کے پاس میں ان کی لویں پڑی ہوئی تھیں
نہ برگ و بار ہی لائے نہ سائباں ہوئے ترکؔ
ہماری شاخوں پہ کیسی گرہیں پڑی ہوئی تھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.