دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
ہوا رقیب تو ہو نامہ بر ہے کیا کہئے
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے
رہے ہے یوں گہہ و بے گہہ کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہئے
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیا کہئے
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال
کہ یہ کہے کہ سر رہ گزر ہے کیا کہئے
تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہئے
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے
کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.