دو گھڑی بیٹھے تھے زلف عنبریں کی چھاؤں میں
دو گھڑی بیٹھے تھے زلف عنبریں کی چھاؤں میں
چبھ گیا کانٹا دل حسرت زدہ کے پاؤں میں
کم نہیں ہیں جب کہ شہروں میں بھی کچھ ویرانیاں
کس توقع پر کوئی جائے گا اب صحراؤں میں
کچی کلیاں پکی فصلیں سر چھپائیں گی کہاں
آگ شہروں کی لپک کر آ رہی ہے گاؤں میں
زخم نظارا ہیں جسموں کی برہنہ ٹہنیاں
ایسے پت جھڑ میں کھلیں گے پھول کیا آشاؤں میں
کیا کہوں طول شب غم پل میں صدیاں ڈھل گئیں
وقت یوں گزرا کہ جیسے آبلے ہوں پاؤں میں
زندگی میں ایسی کچھ طغیانیاں آتی رہیں
بہہ گئیں ہیں عمر بھر کی نیکیاں دریاؤں میں
جلتے موسم میں کوئی فارغ نظر آتا نہیں
ڈوبتا جاتا ہے ہر اک پیڑ اپنی چھاؤں میں
- کتاب : Range-e-Gazal (Pg. 399)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.