دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
نئے سر سے پھر آگ بھڑکا گئے
تمہاری ضدوں سے ہم اکتا گئے
کسی روز سن لینا کچھ کھا گئے
ہماری فغاں سے نہ مانو برا
کہاں تک کریں ضبط گھبرا گئے
قفس سے چھٹے کن دنوں یا نصیب
کہ پتے بھی پھولوں کے مرجھا گئے
گئے میرے دشمن کے پھولوں میں وہ
مجھے غم کے کانٹوں میں الجھا گئے
ہمارے گل اندام کا ہے یہ رنگ
ذرا دھوپ میں نکلے سنولا گئے
یہ سر چوٹ فرقت کے صدمے رہی
بہت کاسۂ سر میں بال آ گئے
لحد میں گرے جب ہوا سر سفید
پڑی دھوپ ایسی کہ تیورا گئے
نہ پہنچی چمن تک خزاں آ گئی
دلوں کے کنول کھل کے کمھلا گئے
کسی کی وہ زلفیں جو یاد آ گئیں
مرے سینے پر سانپ لہرا گئے
فلک ابر کی طرح پھٹ جائے گا
مرے نالے جس روز ٹکرا گئے
ہر اک بات کی تہ سمجھنے لگے
بہت دور ہو ہم تمہیں پا گئے
ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار
کنھیا بنے وہ جو سنولا گئے
نہ جوبن ابھرنے دیا ناز نے
دوپٹا جو سرکا تو شرما گئے
میاں بحرؔ کیوں چپکے چپکے ہو آج
جو میہمان آئے تھے وہ کیا گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.