ڈوبتا ہوں جو ہٹاتا ہوں نظر پانی سے
ڈوبتا ہوں جو ہٹاتا ہوں نظر پانی سے
اور تکتا ہوں تو چکراتا ہے سر پانی سے
چاند بھی اب نکل آیا افق آب کے پار
میرے غرقاب بدن تو بھی ابھر پانی سے
نامہ بر کوئی نہیں ہے تو کسی لہر کے ہاتھ
بھیج ساحل کی طرف اپنی خبر پانی سے
یہ بھی کیا کم ہے کہ ٹیلے تو ہوئے کچھ ہموار
بنتی جاتی ہے نئی راہ گزر پانی سے
نہیں معلوم کہ بہہ جاؤں میں کب خس کی طرح
یوں تو محفوظ ابھی تک ہوں ظفرؔ پانی سے
- کتاب : Mazhab e Ishq (Pg. 71)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.