دور تک پھیلا سمندر مجھ پہ ساحل ہو گیا
دور تک پھیلا سمندر مجھ پہ ساحل ہو گیا
لوٹ کر جانا یہاں سے اور مشکل ہو گیا
داخلہ ممنوع لکھا تھا فصیل شہر پر
پڑھ تو میں نے بھی لیا تھا پھر بھی داخل ہو گیا
خواب ہی بازار میں مل جاتے ہیں تعبیر بھی
پہلے لوگوں سے سنا تھا آج قائل ہو گیا
اس ہجوم بے کراں سے بھاگ کر جاتا کہاں
تم نے روکا تو بہت تھا میں ہی شامل ہو گیا
پہلے بھی یہ سب مناظر روکتے تھے اس دفعہ
ایسا کیا دیکھا کہ تجھ سے اور غافل ہو گیا
ایک موقعہ کیا ملا خوش فہمیاں بڑھنے لگیں
راستہ اتنا پسند آیا کہ منزل ہو گیا
اور کیا دیتا بھلا صحرا نوردی کا خراج
تو بچا تھا اب کے تو بھی نذر محمل ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.