ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے
ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے
سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے
مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا
جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے
ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے
پھر بھی سورج مرے پودے کا بھلا چاہتا ہے
ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے
اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا چاہتا ہے
صرف میں ہی نہیں سب ڈرتے ہیں تنہائی سے
تیرگی روشنی ویرانہ صدا چاہتا ہے
دن سفر کر چکا اب رات کی باری ہے شکیلؔ
نیند آنے کو ہے دروازہ لگا چاہتا ہے
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 41)
- Author :شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.