فیض تھا اس کے تصور کا جو چشم تر تک
فیض تھا اس کے تصور کا جو چشم تر تک
قافلے رنگ کے کھنچ آئے ہمارے گھر تک
دیکھتے اہل جہاں ذوق وفا کے جوہر
اس کی تلوار ہی پہنچی نہ ہمارے سر تک
تیرے کوچے کی فضا اور ہی کچھ ہے یوں تو
نظریں ہو آئی ہیں دنیا کے ہر اک منظر تک
اے خرد تجھ سے کسی دل کو جگایا نہ گیا
عشق کے ہاتھ میں تو بول اٹھے پتھر تک
ہم تو موسم کے اشاروں سے بہک جاتے ہیں
مے کشی کچھ نہیں محدود خم و ساغر تک
موت آ جائے بس اک سجدۂ پر شوق کے بعد
کاش ہو جائے رسائی کبھی تیرے در تک
کیا ہو انجام ترقی کا خدا جانے جلیلؔ
شورش عقل سے لرزاں ہیں مہ و اختر تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.