فقیروں کا چلن یوں جسم کے اندر مہکتا ہے
فقیروں کا چلن یوں جسم کے اندر مہکتا ہے
مری پگڑی بھی گر جائے تو میرا سر مہکتا ہے
وہ اپنے ہاتھ میں اک پھول بھی لے کر نہیں آیا
مگر جیسے کوئی گلشن مرے اندر مہکتا ہے
مجھے دیکھے بنا اس کا کبھی چہرا نہیں کھلتا
عجب خوشبو کا جھونکا ہے مجھے چھو کر مہکتا ہے
پری کی داستانوں سے معطر ہے ادھر آنگن
ادھر سالن کی خوشبو میں رسوئی گھر مہکتا ہے
یہ مانا سب کے ہاتھوں میں یہاں کشکول ہے لیکن
یہی وہ گاؤں ہے ہر دن جہاں لنگر مہکتا ہے
نہ جانے خواب کے ٹوٹے کھنڈر میں کون آیا تھا
کبھی کمرہ مہکتا ہے کبھی بستر مہکتا ہے
مرے لہجے میں گھلتی جا رہی ہے یوں تری خوشبو
کوئی بھی آئنہ دیکھوں ترا پیکر مہکتا ہے
سلیقہ یوں بھٹکنے کا سکھایا ہے فقیروں نے
جدھر سے ہم گزر جائیں وہاں گھر گھر مہکتا ہے
نہ جانے گاؤں کے پنگھٹ میں ساگرؔ کون آیا تھا
ابھی تک دیکھیے تالاب کا پتھر مہکتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.