فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
ایک پر پیچ غنا ایک حریری نغمہ
ہائے وہ حسن کہ جنگل کی صدا ہو جیسے
عشق یوں وادئ ہجراں میں ہوا محو خرام
خارزاروں میں کوئی آبلہ پا ہو جیسے
عارضوں پر وہ ترے تابش پیمان وفا
چاندنی رات کے چہرے پہ حیا ہو جیسے
اس طرح داغ دمکتے ہیں دل وحشی پر
قیس کے جسم پہ پھولوں کی عبا ہو جیسے
کتنا دل کش ہے تری یاد کا پالا ہوا اشک
سینۂ خاک پہ مہتاب گرا ہو جیسے
رت جگے وہ بھی نشاط غم محبوب کے ساتھ
حسن والوں نے بڑا کام کیا ہو جیسے
ہجر کی رات عجب رنگ ہے پیمانے کا
دست مے خوار میں بجھتا سا دیا ہو جیسے
خاک دل پر ترے سیال تصور کا خرام
ریگ صحرا پہ رواں باد صبا ہو جیسے
آج اس شوخ کی چتون کا یہ عالم ہے ظہیرؔ
حسن اپنی ہی اداؤں سے خفا ہو جیسے
- کتاب : Range-e-Gazal (Pg. 272)
- Author : shahzaad ahmad
- مطبع : Ali Printers, 19-A Abate Road, Lahore (1988)
- اشاعت : 1988
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.