غم کے بے نور مزاروں کا گلا گھونٹ آیا
غم کے بے نور مزاروں کا گلا گھونٹ آیا
سارے بے مہر سہاروں کا گلا گھونٹ آیا
قریۂ ہجر کے اک گھر کا وہ ویران آنگن
وصل کے شوخ نظاروں کا گلا گھونٹ آیا
راہ کے سنگ کو سولی پہ چڑھایا پہلے
اور پھر پاؤں کے خاروں کا گلا گھونٹ آیا
روز سورج کہ طرف سے یہ سوال آتا ہے
کیا میں ان چند ستاروں کا گلا گھونٹ آیا
ظلمت شب میں وہ بستی کے نشینوں کا جنون
شہر کی سارے مناروں کا گلا گھونٹ آیا
ہائے اک پھول مسلنے کو یہ کانٹوں کا ہجوم
جا کے گلشن میں بہاروں کا گلا گھونٹ آیا
دار پر خار پہ لٹکا کے سلگتے پھندے
قطرۂ آب شراروں کا گلا گھونٹ آیا
آج پھر ضبط رگ جان سے نکل کر نایابؔ
درد کے جلتے دیاروں کا گلا گھونٹ آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.