گر میرے بیٹھنے سے وہ آزار کھینچتے
گر میرے بیٹھنے سے وہ آزار کھینچتے
تو اپنے در کی آ کے وہ دیوار کھینچتے
ناز و ادا و غمزہ سے یوں دل لیا مرا
لے جائیں جیسے مست کو ہشیار کھینچتے
وا حسرتا ہوئی انہیں آنے کی تب خبر
لائے جب اس گلی میں مجھے یار کھینچتے
آئے گا ان کے کہنے سے وہ گل یہاں تلک
کانٹوں پہ کیوں ہیں اب مجھے اغیار کھینچتے
واں شوق جالیوں کا ہے اس جامہ زیب کو
یاں اپنے پیرہن سے ہیں ہم تار کھینچتے
ہیں تیغ نگاہ یار اچٹتی لگی ہے پھر
برسوں گزر گئے مجھے آزار کھینچتے
کہتے ہیں شب وہ کہتے تھے آتا ہے جی گھٹا
نالے جو ہم رہے پس دیوار کھینچتے
آزردہ ان کو دیکھتے ہی جاں نکل گئی
وہ دیکھ مجھ کو رہ گئے تلوار کھینچتے
تسکینؔ کا چاک چاک ہوا دل جو شانے کو
دیکھا کسی کا طرۂ طرار کھینچتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.