گردش چرخ سے قیام نہیں
گردش چرخ سے قیام نہیں
صبح گھر میں ہوں میں تو شام نہیں
کبھی تو منہ سے بولئے صاحب
بے دہن ہو تو کچھ کلام نہیں
جاں بہ لب ہوں فراق دلبر میں
صبح جیتا رہا تو شام نہیں
کس کے زلفوں کے بال بکھرے ہیں
میرے نبضوں میں انتظام نہیں
روز و شب ذکر زلف و عارض ہے
یہ کہانی کبھی تمام نہیں
کیا رقیبوں سے میں جہاد کروں
میرے ہم راہ وہ امام نہیں
تیرا دیوانہ مر گیا شاید
آج گلیوں میں ازدحام نہیں
ہجر میں یہ شراب ہے تیزاب
ہاتھ پر آبلہ ہے جام نہیں
کیا سمجھ کر یہ ناز کرتے ہیں
امردوں کا کوئی غلام نہیں
ولولے تھے شباب تک اپنے
اب ہماری وہ دھوم دھام نہیں
اس طرف سے ہیں سجدے پر سجدے
اس طرف سے کبھی سلام نہیں
دل کو لے کر الگ ہوئے ایسے
کہ کبھی تم کو ہم سے کام نہیں
موج دریائے پائمالی ہے
اس جفاکار کا خرام نہیں
بوسہ لے کر مزا ملا مجھ کو
حنظل اس کا ذقن ہے آم نہیں
کس کے بل پر وہ شوخ ہے مغرور
خط شب رنگ فوج شام نہیں
بحرؔ بہکے ہوئے ہیں اہل دل
نشۂ آب زر مدام نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.