گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں
گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں
محیط سانسوں کے پار جا کر بہت ہی نایاب ہم ہوئے ہیں
کسی نے ہم کو عطا نہیں کی ہماری گردش ہے اپنی گردش
خود اپنی مرضی سے اس جہاں کی رگوں میں گرداب ہم ہوئے ہیں
عجیب کھوئے ہوئے جہانوں کی گونج ہے اپنے گنبدوں میں
نہ جانے کس کی سماعتوں کے مزار کا باب ہم ہوئے ہیں
جو ہم میں مسمار ہو چکا ہے اسی سے تعمیر ہے ہماری
عدم کے پتھر تراش کر ہی ابد کی محراب ہم ہوئے ہیں
تمام سطحیں الٹ رہی ہیں حیات کی موت کی خدا کی
جو تیرے دل سے ابھر کے آتے ہیں ایسے سیلاب ہم ہوئے ہیں
ریاضؔ ڈر ہے کہیں نہ آنکھوں کی کشتیوں میں چھپے سمندر
جمود ٹوٹا ہے ساری موجوں کا ایسے بے تاب ہم ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.