ہے جو اک معرکہ فیصل نہیں ہونے دیتا
ہے جو اک معرکہ فیصل نہیں ہونے دیتا
جن وہ ہو کے مجھے بوتل نہیں ہونے دیتا
قتل اک روز ہی کرتا ہوں اسی گوشے میں
اور ثابت اسے مقتل نہیں ہونے دیتا
ضد ہے اس کی کہ ہر اک شاخ ہو پھر سبز ہی سبز
گرچہ پیدا کوئی کونپل نہیں ہونے دیتا
روشنی اپنے خیالوں ہی سے کرنی ہوگی
کوئی روشن کہیں مشعل نہیں ہونے دیتا
چوں کہ مٹی کی بھی ایک اپنی الگ خوشبو ہے
میں کہیں بھی اسے صندل نہیں ہونے دیتا
اک پرندہ کہ جو سہتا ہے ہواؤں کا دباؤ
اور پرواز کو پیدل نہیں ہونے دیتا
ڈر ہے اس کو نظر آئے نہ کہیں ذہن کا عکس
وہ مرا آئنہ صیقل نہیں ہونے دیتا
ترا قانون ہے جنگل کا غنیمت ہے کہ تو
مرے اس شہر کو جنگل نہیں ہونے دیتا
چلو بات اس کی سنیں ایک عجب منطق سے
جو کسی بات کو مہمل نہیں ہونے دیتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.