ہے وہم جیسے کوئی نقش یہ دہائی دے
ہے وہم جیسے کوئی نقش یہ دہائی دے
یہ ضرب تیشہ مجھے سنگ سے رہائی دے
نتیجۂ دروں بینی تھا کس قدر بے کیف
کنویں میں دور تک اب ریت ہی دکھائی دے
حصار گوش سماعت کی دسترس میں کہاں
تو وہ صدا جو فقط جسم کو سنائی دے
یہ کس طلب کی ہوائیں مشام جاں میں چلیں
کہ جلتے گوشت کی خوشبو فقط سنگھائی دے
چلو کہ دونوں ہوں گرداب اتصال میں غرق
نہ جانے وقت کسے ساحل جدائی دے
ہرا بھرا ہی رہے گا وہ خواہشوں کا درخت
ہوا ہزار اسے برگ نارسائی دے
مصورؔ اس سے کہو عمر بھر نہ مل پائے
بڑا ہے جرم اذیت بھی انتہائی دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.