ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے
ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے
جو ہم سے زیادہ جانتے تھے وہ ہم سے زیادہ روتے تھے
اچھوں کو جہاں سے اٹھے ہوئے اب کتنی دہائیاں بیت چکیں
آخر میں ادھر جو گزرے ہیں شاید ان کے پر پوتے تھے
ان پیڑوں اور پہاڑوں سے ان جھیلوں ان میدانوں سے
کس موڑ پہ جانے چھوٹ گئے کیسے یارانے ہوتے تھے
جو شبد اڑانیں بھرتے تھے آزاد فضائے معنی میں
یوں شعر کی بندش میں سمٹے گویا پنجروں کے طوطے تھے
وہ بھیگے لمحے سوچ بھرے وہ جذبوں کے چقماق کہاں
جو مصرعۂ تر دے جاتے تھے لفظوں میں آگ پروتے تھے
یہ خشک قلم بنجر کاغذ دکھلائیں کسے سمجھائیں کیا
ہم فصل نرالی کاٹتے تھے ہم بیج انوکھے بوتے تھے
اب سازؔ نشیبوں میں دل کے بس کیچڑ کالی دلدل ہے
یاں شوق کے ڈھلتے جھرنے تھے یاں غم کے ابلتے سوتے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.