حقیقتوں کو تصور سے کھینچ لاتے ہیں
حقیقتوں کو تصور سے کھینچ لاتے ہیں
ہم ایسے لوگ کہانی نہیں بناتے ہیں
عجیب لوگ ہیں بستی میں روشنی کے لئے
دیا جلاتے نہیں ہیں دھواں اڑاتے ہیں
علاج مانگ رہے ہیں یہ ناقدین عہد
جو آفتاب کو دیپک یہاں دکھاتے ہیں
تمہاری فکر کی بیساکھیاں نہیں لیتے
ہم اپنی فکر سے اپنا جہاں بناتے ہیں
ہمارے پاؤں کے چھالے ہماری منزل تک
ابل ابل کے نیا راستہ بناتے ہیں
کلام کرتی ہیں اکثر وہ جاگتی آنکھیں
انہیں ہم اپنے تصور میں جب سجاتے ہیں
پرانی فکر پہ قائم ہے یہ نئی دنیا
ہم اس کو روز ہی پڑھتے ہیں بھول جاتے ہیں
کسی طرح سے نہ کر پاؤں گا تری تقلید
مرے خیال کے آہو مجھے بلاتے ہیں
ہمارا کام ہے برسوں سے بس یہی راہی
بھٹک گئے جو انہیں راستہ دکھاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.