حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا
حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا
گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا
سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں
کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا
تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر
مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا
جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا
وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا
وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ
یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا
مجھے تباہ کیا التفات نے اس کے
اسے بھی آ نہ سکا راس دوستانہ مرا
کسے قبول کریں اور کس کو ٹھکرائیں
انہیں سوالوں میں الجھا ہے تانا بانا مرا
- کتاب : Kahein Kuch Nahein Hota (Pg. 104)
- Author : Shahid Mahuli
- مطبع : Miaar Publications (2003)
- اشاعت : 2003
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.