ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود
ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود
کعبہ پہنچ گیا ہوں بھٹکنے کے باوجود
کیا کیجیئے کہ گرد طلب کی جمی رہی
دامان دل کو روز جھٹکنے کے باوجود
شاید کھلی ہے آپ کے آنے سے چاندنی
دھندلی سی لگ رہی تھی چھٹکنے کے باوجود
کیسا ہے یہ بہار کا موسم کہ باغ میں
ہنستی نہیں ہیں کلیاں چٹکنے کے باوجود
ہم بھی کتاب زیست کو پڑھتے چلے گئے
ایک ایک حرف غم پہ اٹکنے کے باوجود
اب کے جنوں میں عالم شوریدگی نہ پوچھ
قائم رہا ہے سر کو پٹکنے کے باوجود
راحت گزار دی ہے بڑی شان سے حیات
آنکھوں میں زندگی کی کھٹکنے کے باوجود
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.