ہر قدم پر شوق منزل کی فراوانی تو ہے
دلچسپ معلومات
اپریل1942
ہر قدم پر شوق منزل کی فراوانی تو ہے
راہ دشوار محبت میں یہ آسانی تو ہے
بے شک اس جینے سے مر جانے میں آسانی تو ہے
لیکن اے دل مرضیٔ قاتل کی قربانی تو ہے
سچ ہے شیون سے مرے ان کو پریشانی تو ہے
لیکن آخر درد عذر نالہ سامانی تو ہے
کامیابی ہو نہ ہو بیٹھا نہ رہ تدبیر کر
مدعا بس میں نہیں ہے سعیٔ امکانی تو ہے
آج یہ تسکین کافی ہے کہ کل روز جزا
روئداد زیست کہہ کر داد غم پانی تو ہے
ہاں یہاں یہ ہے کہ مقصود و تمنا ساتھ ہیں
ورنہ یہ جنت ہماری جانی پہچانی تو ہے
ایک ظرف دل ہے اس میں دو کی گنجائش کہاں
دور اے جمعیت خاطر پریشانی تو ہے
ہاں برے کو بھی نہ ایذا دے کہ اس کی ذات میں
خوئے انسانی نہیں ہے روح حیوانی تو ہے
رہنمائی عقل سے چاہی شروع عشق میں
عفو کر اے بے خودی یہ میری نادانی تو ہے
دیکھیے بازار محشر میں یہ کن داموں بکے
جنس غم کی خیر سے دنیا میں ارزانی تو ہے
اور نکلے گی کوئی تدبیر پیراہن دری
ہوں جو شل ہیں ہاتھ شوق چاک دامانی تو ہے
آئنہ میں اقتدار حسن کی صورت کہاں
آئنہ رکھ دے ادھر آ میری حیرانی تو ہے
ان کو کیا ٹوٹے کسی کا دل کہ رسوا ہو کوئی
خوش رہیں یوسف کہ ثابت پاک دامانی تو ہے
کس غرض سے پھر گوارا کیجیے تکلیف ضبط
راز رکھ کر بھی محبت کی سزا پانی تو ہے
اہل دل سے یہ جہاں خالی بھی رہتا ہے کہیں
عرفیؔ و غالبؔ نہیں فانیؔ نہیں مانیؔ تو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.