ہر راحت جاں لمحے سے افتاد کی ضد ہے
ہر راحت جاں لمحے سے افتاد کی ضد ہے
بیداد زمانہ بھی کسی داد کی ضد ہے
ہر خیر کسی شر سے بقا یاب ہوئی ہے
یہ حسن تعادل بھی تو اضداد کی ضد ہے
اب آنکھیں بھلا کس طرح تقسیم کرے ماں
دیواریں کھڑی کرنا تو اولاد کی ضد ہے
گریہ نہیں معقول بیاد کس رفتہ
لیکن یہ تماشا دل ناشاد کی ضد ہے
میں راستہ بھولا ہوا پیادہ ہوں مجھے کیا
رہبر کو اگر جادۂ برباد کی ضد ہے
میں خود سے نبھانے کا روادار نہیں تھا
یہ پہلی محبت مرے ہم زاد کی ضد ہے
ہیں فکر کے آثار خداؤں کی جبیں پر
اک ابد زیاں کار کو الحاد کی ضد ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.